­
PAIGHAM 786: Ek Kahani Ek Afsana(Sabaq Amoz Kahaniya)

Ek Kahani Ek Afsana(Sabaq Amoz Kahaniya)

7:55 PM

ایک کہانی ۔۔۔ ایک افسانہ 

شیدا
از قلم : عبدالاحد
شیدا سردیوں میں کھلونے بیچتا تھا ۔۔ چائنہ کے بیس
پچاس والے کھلونے اور گرمیوں میں ریڑھی پر دس بیس
والی کولڈ ڈرنکس۔ جب بھاری بھرکم ریڑھی دھکیلتے
دھکیلتے تھک جاتا تو برف کے گولے بیچا کرتا۔۔
اس کی ریڑھی پر سجی شربت کی رنگ برنگی بوتلیں مجھے
اکثر زندگی کے رنگوں کی خبر دیا کرتیں۔
گرمیوں کی تپتی دوپہر میں کسی سایہ دار گلی کے اندر اپنی
ریڑھی کھڑی کرتا اور ریز گاری گنا کرتا۔
کرایہ پر کہیں کوٹھری لے کر رہتا تھا۔ ماں باپ تو تھے نہیں
جو شیدے کہ سر پر ہاتھ رکھتے۔ بھائ بہن دور کہیں اپنے
اپنےگھر بسائے ہوئے تھے۔
شیدے کا شناختی کارڈ گم گیا تھا۔ اور پولیس اسے اکثر تنگ
کیا کرتی۔ اس نے ٹوکن تو بنوالیا تھا لیکن پولیس تو غریب
کی جمع پونجی پر نظر رکھے ہوتی ہے۔ وہ اسے معاف نہیں
کرتے تھے۔
ہم اپنا آبائ گھر بیچ کر جب نئے محلے میں شفٹ ہوئے تو
شیدا ہی تھا جو ہمارے پاس آتا اور پرانے محلے کی خبریں
سناکر ہمیں اس کے ساتھ جوڑے رکھتا۔
آتا تو میرے بچوں کے لئے کچھ کھلونے بھی لیکر
جب بھی آتا۔
جب ہمارے ہاں سے کچھ روکھی سوکھی کھاتا تو دعا ضرور
دیتا:
' اللہ بوتا ( زیادہ) دے باؤ جی !"
اور میں زیر لب "آمین" بول دیا کرتا!
"
دھوپ چھاؤں تو زندگی کا حصہ ہے نا! اگر اللہ پاک وقت کا
پہیہ بدلتا نہ رہے تو زمین فرعونوں سے بھر جائے۔ امیر جب
تکبر کی چوٹی پر چڑھ کر غریب کی زندگی تنگ کرتا ہے تو
آسمان و زمین کا پالن ہار اسے نشان عبرت بھی بنادیا کرتا
ہے۔ کچھ بدنصیب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کا حساب
دوسری اور لافانی دنیا میں لینے کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔
انہیں توبہ نصیب ہی نہیں ہوتی !
تو میری زندگی بھی چلچلاتی دھوپ میں جل رہی تھی۔
شیدا جب اس بار آیا تو اس نے محسوس کیا کہ میں بجھا
بجھا سا ہوں۔ اس نے مجھے تسلی دی اور بولا :
' باؤ جی ! ریڑھی کا بندوبست کرلیں ۔ میں آپ کو برف کے
گولے بنانا سکھا دیتا ہوں۔ شربت بھی بنانا سکھاؤں گا۔ کہتے
ہیں تو بوتلیں بھی لا دیا کروں گا۔ اپنی گلی کی نکر پر ریڑھی
لگا لینا۔ رب روٹی دے گا !"
"
مشورے تو سبھی دیتے ہیں لیکن شیدے نے مجھے اپنے ذہن
کے مطابق مدد کی اور شراکت کی پیش کش کی تھی!
شیدے غریب کا کتنا امیر دل تھا !
اس کے کپڑے اکثر میلے ہوا کرتے تھے۔ جوتی بھی ٹوٹی ہوتی۔
کبھی کبھی جب موڈ میں ہوتا تو کہتا :
' باؤ جی ! آج کل اپنا رشتہ دیکھ رہا ہوں۔ ابھی بھی شادی
نہ ہوئ تو کب ہوگی۔
غریب خواب تو دیکھ ہی سکتا ہے نا ! چاہے اس کی تعبیر
الٹ ہی کیوں نہ ہو!
پھر ایک روز پولیس نے شیدے کو شناختی کارڈ نہ ہونے کی
وجہ سے اسے اس کی کوٹھری سے نہ صرف سامان سمیت
باہر پھینک دیا بلکہ اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔۔
شیدا بے گھر ہوگیا تھا !
میری طرف آئے اسے کافی دن گزر گئے تھے۔ مجھے پتہ نہیں
چلا کہ شیدے کے ساتھ کیا ہوا ہے؟
جب رشتے احساس کے ہوں تو خبر ہو ہی جایا کرتی ہے!
ایک رات شیدا میرے خواب میں آیا ۔۔ صاف ستھرا نکھرے
ہوئے سفید لباس میں ملبوس بال اچھی طرح سے بنائے
ہوئے۔ اور نئ جوتی پہنے ۔۔مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ یوں
لگا جیسے کہیں سفر پر جارہا ہو ! کچھ بولا نہیں صرف
دیکھے جارہا تھا۔۔
صبح اٹھ کر میں نے سوچا کہ لگتا ہے کہ شیدا اپنے بھائ کے
پاس چلا گیا ہو!
میں اپنی زندگی کی الجھنے سلجھانے میں لگ گیا!
پھر خبر ملی کہ شیدا تو تشدد کی وجہ سے اپنے حواس کھو
بیٹھا تھا اور اس دنیا میں چلا گیا تھا کہ جہاں ہمارا باطن
ظاہر کردیا جاتا ہے۔ اور پھر ہمیں اسی کے مطابق جنت کا
نوری لباس یا جہنم کا ناری لبادہ اوڑھا دیا جاتا ہے۔
اس دنیا میں تو شیدا ہمیشہ مظلوم ہی رہا ۔ خاک نشین !
لیکن رزق حلال ہی کماتا اور کھاتا رہا۔ اس دنیا میں گیا تو
نکھر گیا۔ پر سکون ہو گیا۔۔
سوچتا ہوں ہمارے جیسے بظاہر نکھرے نکھرے لیکن اندر
سے میلے کچیلے جب خاک میں اتارے جائیں گے تو پھر
نکھریں گے یا ۔۔۔
پھر ہمارا بھی باطن ظاہر بنا دیا جائے گا!!

You Might Also Like

0 Comments

Advertisement

Blog Archive

Followers

Contact Form

Name

Email *

Message *