­
PAIGHAM 786: Zawal Ke Akhri Had(Sabaq Amoz Tahreray)

Zawal Ke Akhri Had(Sabaq Amoz Tahreray)

11:12 PM

 زوال کی آخری حد

میں کال پر بات کرتے ہوئے اپنے دوست کو کہہ رہا تھا کہ

میں زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہوں اتنی دیر میں

میرے کندھے پر کسی نے پیچھے سے ہاتھ رکھا ہاتھ کی

جھریاں بتا رہی تھی کہ یہ انسان بہت سے نشیب و فراز

دیکھ چکا ہے میں پیچھے کی طرف پلٹا ہی تھا کہ سامنے

کھڑی بوڑھی خاتون مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی تھی

بیٹا زوال کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے

رہا کرو جس حال میں بھی رہو شکر ادا کرتے رہا کرو اس

بزرگ خاتون کے منہ سے نکلنے والے الفاظ اس کے پھٹے ہوئے

کپڑے اجڑی ہوئی شخصیت چهلنی روح اور لرزتے ہوئے میلے

کچیلے جسم کے برعکس تھے خاتون دماغی معذور اور

مانگنے والی لگتی تھی جبکہ الفاظ کسی فلاسفر سے کم نہ

تھے لہذا میں نے کال بند کی اور خاتون سے بات چیت کرنے

کا سوچا اسے قریبی ڈھابے پر لے جا کر ایک چائے اور تین

کیک منگوائے خاتون کی ضد کے باوجود میں نے اپنے لئیے

چائے نہیں منگوائی کیوں کہ میری جیب اس کی اجازت نہ

دیتی تھی جب خاتون لوازمات سے فارغ ہو چکی تو میں نے

ان کو مخاطب کر کے زوال کی آخری حد کے متعلق پوچھا تو

انہوں نے ایک بار پھر اپنی بات دہراتے ہوئے کہا

' بیٹا زوال کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی جس حال میں


بھی رب رکھے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہو

میں ہونقوں کی طرح بزرگ خاتون کے چہرے کی طرف دیکھ

رہا تھا وہ میری حالت سمجھ گئی اور اپنی کہی گئی بات کے

لئیے اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے کہنے لگی کہ

11

میرے والد صاحب اپنے گاؤں میں غریب ترین انسان تھے

وہ سائکل پر پھیری کرتے تھے کئی بار گھر میں فقط

بچوں

کے لیے روٹی بنتی والد صاحب اور والدہ کے لئیے کھانا نہ

بچتا تو وہ پھر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر کے سو جاتے بنا

شکوه شکایت وقت تہجد میرے والدین اٹھتے تہجد اور فجر

ادا کرتے والدہ صاحبہ ناشتہ بنانے لگتیں اور والد صاحب

پھیری پر جانے کی تیاری کرنے لگتے میں بہن بھائیوں میں

سب سے بڑی تھی لہذا والدہ صاحبہ کے ہمراہ گاؤں کی بڑی

بڑی کوٹھیوں میں کام کاج کے لئیے جاتی رہتی تھی اور

سوچتی تھی خوش قسمت تو یہ لوگ ہیں ہمارے پاس تو

کچھ بھی نہیں اور دل میں ایسے ہی محل میں بسنے کے

خواب دیکھتی رہتی تھی چونکہ غریب خاندان اپنے بچوں

کی شادی جلد کر دیتے ہیں لہذا میرے والدین بھی میری

شادی کی کوشش کرنے لگے مگر وہ اپنے جیسے غریب

گھروں کے لڑکے لاتے جنہیں میں رد کر دیتی یہاں تک میرے

والدین اکتا گئے اور انہوں میری پسند کا پوچھا تو میں نے

پچھلی گلی میں مقیم توحید کا نام لیا جو کہ والدین کے

ساتھ کینیڈا میں سیٹ تھا اور ہر سردیوں میں

پاکستان آتا تھا کیونکہ میری نظر میں ہم لوگ زوال پذیر تھے

ان پر عروج کا موسم تھا میری بات سن کر والد صاحب نے

کہا کہ اپنی حثیت کے حساب سے خواب دیکھو وہ لوگ ہم

سے بہت بہتر ہیں میں نے صاف صاف کہہ دیا شادی کروں

گی تو وہاں ہی کروں گی ورنہ نہیں لہذا میرے والدین نے

مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا اور باقی بہن بھائیوں کی

طرف متوجہ ہو گئیے

وقت گزرتا گیا میں نے توحید کو محبت کے جال میں

پھانس لیا مگر اس کے گھر والے مجھے اپنی بہو بنانے پر

رضامند نہ تھے

میں نے توحید کو محبت کی خاطر اس کے والدین کے سامنے

کھڑا کر دیا یہاں تک شدید اختلافات کے باوجود توحید نے

مجھ سے کورٹ میرج کر لی اس کے والدین اس سے لاتعلق

ہو گئیے اور وہ یہاں ہی پاکستان میں رہ گیا جبکہ دوسری

طرف میرے والدین نے بھی مجھ سے قطع تعلق کر لیا اور

فقط توحید کی ہو کر رہ گئی توحید مجھے لے کر لاہور

شہر منتقل ہو گیا کینیڈا میں اس کے والدین کا ذاتی بزنس

تھا لہذا یہاں محنت مزدوری اس کے بس کی بات نہ تھی

جوں جوں اکاؤنٹ میں موجود پیسے ختم ہونے لگے میرے

شوہر کی محبت بھی ختم ہونے لگی یہاں تک ہمارے دو بچے

ایک بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئے اور اب توحید بنا بچوں کی پرواہ کئیے مجھے مارنے پیٹنے لگا پہلے ہم لوگ گلبرگ میں مقیم

تھے پھر جب پیسے کم ہوئے تو کینٹ منتقل ہو گئے اور جب

اکاؤنٹ میں موجود رقم بالکل اختتام تک پہنچی تو ہم لوگ

غازی آباد مغلپورہ منتقل ہو گئے اب گھر کا کرایہ تک دینے

کے پیسے نہ تھے میرے شوہر کے سر سے محبت کا بھوت اتر

چکا تھا وہ مجھے مار پیٹ کر لوگوں کے گھروں میں کام لئیے

بھیجتا یہاں تک کہ پھر بھی گھر کے اخراجات پورے نہ ہوتے

تو مجھ سے بھیک منگواتا مجھے لگا اصل زوال یہ ہے جو

میں دیکھ رہی ہوں وہ زوال تو کچھ بھی نہیں تھا اب مجھے

اپنا جھونپڑی نما گھر یاد آتا جہاں میرے والدین چاہے بھوکے

سو جاتے مگر مجھے پیٹ بھر کر کھانا ملتا میں بیمار ہوتی

تو دوا ملتی چاہے میرے والدین خود بیماری کی حالت میں

بستر پر گل جاتے اب مجھے والدین کی شکر گزاری کی

سمجھ آنے لگی تھی مگر آزمائش ابھی باقی تھی

جب حالات انتہائی دگر گوں ہو گئیے تو میرا شوہر مجھے دو

بچوں سمیت طلاق دے کر واپس کینیڈا چلا گیا اور میں

یہاں بھیک مانگ کر لوگوں کے گھروں میں کام کر کے بچوں

کو پالنے لگی یہاں تک جب میرے بچے جوان ہوئے تو میرا

بیٹا ٹریفک حادثے میں مر گیا تب مجھے

لگا کہ اب میں

زوال کی آخری حدوں پر پہنچ چکی ہوں اس سے زیادہ زوال

پذیر نہیں ہو سکتی خیر میرے بچے کی موت کے بعد میری

جو کہ زندہ تھی انہوں نے میرے بھائیوں کو بھیجا اور

وہ مجھے اور میری بیٹی کو اپنے ساتھ گھر لے گئیے اور اب

کی بار مجھے یہ گھر کسی جنت سے کم نہیں لگا تھا جہاں

عزت سے دو یا تین وقت کی روٹی بستر پر مل جاتی تھی

میری والدہ مجھے پاس بٹھا کر سمجھایا کرتی کہ بیٹا ہر

حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے رہا کرو ہم جس حال میں

بھی ہوتے ہیں اکثر اوقات اعمال کے حساب سے ہم اس رتبے

کے بھی قابل نہیں ہوتے مگر میں اپنی ماں کو جواب دیتی

کہ اس سے زیادہ زوال انسان کو کبھی آ نہیں سکتا یہاں تک

میری والدہ مجھے سمجھاتے سمجھاتے چل بسی اور مرتے

وقت انہوں نے جو مجھ سے آخری بات کی وہ بھی نصیحت

ہی تھی کہ

بیٹا اگر اللہ تعالیٰ کی آزمائش سے نکلنا چاہتی ہو تو ہر

اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ جو

..

حال میں

بھی کرتا ہے ہمارے لئیے بہتر کرتا ہے "

میں ایک بار پھر اپنے الفاظ دہرانے لگی کہ ہم لوگ زوال کی

آخری حدوں کے بھی آخر پر پہنچ چکے ہیں مگر میری والدہ

نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگیں

جلد ہی ان کی روح ان کے جسم کے پنجرے سے آزاد ہو گئی

البتہ ان کی نصیحت مجھے ان کی زندگی میں سمجھ نہ آ

سکی بعد میں مجھے سبق مل گیا۔۔۔۔۔

11

والدہ صاحبہ کی موت کے چند دن بعد میری بیٹی راتوں

رات اپنے کسی محبوب کے ساتھ فرار ہو گئی تو تب مجھے

پتہ چل گیا کہ زوال کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی ہمیشہ

آغاز ہی ہوتا جب آپ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا

سیکھ لیتے ہیں تو آپ بچ جاتے آپ زوال پذیر کبھی نہیں

ہوتے اگر زوال کے آغاز پر آپ ناشکری اور اللہ تعالیٰ سے گلے

شکوے کرنے لگتے ہیں تو آپ مزید زوال میں گرتے جاتے یہاں

اللہ

تک آپ کو سمجھ آ جاتی ہے کہ زوال کی آخری حد نہیں

ہوتی میری بیٹی گھر سے چلی گئی میں نیم پاگل ہو گئی ہوں

مجھے در در سے مانگ کر کھانے کی عادت پڑھ گئی ہے مجھے

گھر میں سکون نہیں ملتا مگر اس کے باوجود میں

تعالیٰ کی شکر گزار ہوں کہ اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ

نے مجھے رکھا ہوا ہے آپ بھی کبھی شکوہ نہ کرنا کہ آپ

زوال پذیر ہیں بس شکر الحمدللہ کہنا اور یاد رکھنا بلکہ

اوروں کو بھی بتانا کہ زوال کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی




You Might Also Like

0 Comments

Advertisement

Blog Archive

Followers

Contact Form

Name

Email *

Message *